اپنے ہی دست و پا مرے اپنے رقیب ہو گئے
تیرے بغیر پھیل کر بازو صلیب ہو گئے

کوئی ہنسا تو رو پڑے رویا تو مسکرا دیئے
اب کے تیری جدائی میں ہم تو عجیب ہو گئے

آج بھی دیکھ دیکھ کر وعدے کا دن گزر گیا
آج بھی پھیل پھیل کر سائے مہیب ہو گئے

لوØ+ جبیں پہ جس طرØ+ Ù„Ú©Ú¾ÛŒ گئیں مسافتیں
اتنا چلے کہ راستے اپنا نصیب ہو گئے

شدت غم Ú©Ùˆ دیکھ کر غم Ú©Ùˆ بھی رØ+Ù… Ø¢ گیا
وہ جو کبھی رقیب تھے وہ بھی Ø+بیب ہو گئے

اس کی رفاقتون سے ہم کتنے امیر تھے عدیم
وہ جو بچھڑ گیا تو ہم کتنے غریب تھے